Meer Emran Baloch

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

Tuesday, 19 January 2021

عمارت سے محروم کیچ کا سکول، جہاں سائنس ہی نہیں پڑھائی جاتے


بلوچستان کے ضلع کیچ میں 1993 میں قائم ہونے والے کپکپار پرائمری سکول کو 2003 میں مڈل سکول کا درجہ تو مل گیا مگر آج تک اس کے لیے مناسب عمارت اور اساتذہ کا انتظام نہیں ہو سکا اب
مقامی کارکنوں نے تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کا آغاز کیا ہے۔
شازیہ کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے کپکپار مڈل سکول میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے چھ سال سال ہوگئے ہیں۔ وہ روزانہ دو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے آتی ہیں۔ پہلے پہل ان کا سکول ایک کرائے کی عمارت میں واقع تھا لیکن اب انہیں کھلے میدان میں تعلیم حاصل کرنا پڑ رہی ہے۔

بقول شازیہ: ’ہمارا سکول جب پرائمری تھا تو اس وقت صرف ایک چھت تھی۔ بعد میں کرائے کے مکان میں منتقل ہوگیا، جہاں چند کمرے تھے، جو بارشوں میں ٹپکتے تھے۔‘

صرف شازیہ ہی نہیں مڈل سکول کپکپار میں زیر تعلیم پانچ سو کے قریب طلبہ اور طالبات کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔

ضلع کیچ کی تحصیل دشت میں واقع یہ سکول اگرچہ ترقی کرکے مڈل سکول کا درجہ تو حاصل کرچکا ہے، لیکن پرائمری سے لے کر اب تک اس کی عمارت نہ بن سکی۔ کچھ عرصہ کرائے کے مکان میں رہنے کے بعد اب وہ بھی مالک نے خالی کروالیا ہے۔

کپکپار کا علاقہ ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے 130 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جو تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔

علاقہ مکینوں کو دو سال قبل اس وقت خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا، جب انہوں نے سنا کہ سکول کی قسمت جاگ گئی ہے اور حکومت بلوچستان نے عمارت کی تعمیر کے لیے ٹینڈر جاری کردیا ہے، لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور تاحال تعمیر کا کام شروع نہیں ہوسکا۔

زیر تعلیم طلبہ اور طالبات کے ساتھ اساتذہ بھی مشکل صورت حال سے دوچار ہیں، خصوصاً سکول کے ہیڈ ماسٹر عبدالطیف، جو حکام بالا سے باربار ملاقاتوں اور یقین دہانیوں کے باوجود نالاں نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مڈل سکول کا درجہ تو مل گیا لیکن ان کے پاس صرف تین اساتذہ ہیں۔

عبدالطیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سہولیات کی کمی سے جہاں ہمیں پڑھانے میں مشکل کا سامنا ہے، وہاں طلبہ کا کورس بھی مکمل نہیں ہو پاتا۔ سائنس کے مضامین تو پڑھائے ہی نہیں جاتے کیوں کہ اس کا استاد ہی نہیں ہے۔‘

مڈل سکول کپکپار فی الوقت کھلے آسمان تلے قائم ہے اور وہاں طلبہ اور اساتذہ کو بیت الخلا اور پانی کی عدم فراہمی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

یاد رہے کہ ضلع کیچ کا علاقہ دشت شورش سے متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔ یہاں غربت بھی زیادہ ہے اور روزگار کے ذرائع بھی کم ہیں۔

ہیڈ ماسٹر لطیف نے بتایا کہ مڈل سکول کے لیے عمارت کے علاوہ کم از کم نو کمروں اور ہر مضمون کے لیے اساتذہ اور جے وی (جونیئر ورنیکیولر) کے ساتھ معاشرتی علوم اور جنرل سائنس کے اساتذہ کی تعیناتی لازمی ہے۔

انہوں نے کہا: ’مجھے کوئی سمجھائے میں ایک جے وی، ایک پی ٹی ٹیچر (فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر) اور معلم القرآن کے ساتھ مڈل سکول کو کس طرح چلا سکتا ہوں؟ طلبہ اور طالبات میں پڑھنے کا شوق بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود ہم انہیں وہ سب کچھ فراہم نہیں کررہے جن کی انہیں ضرورت ہے۔‘

پرائمری سکول کپکپار کا قیام 1993 میں عمل میں لایا گیا اور 2003 میں اسے مڈل سکول کا درجہ دیا گیا۔ سکول کی عمارت کے لیے مقامی لوگوں نے دو ہزار فٹ زمین بھی وقف کی ہے۔

کے لیے عمارت اور کلاس رومز، پانی اور بیت الخلا کی سہولت کا ہونا ناگزیر ہے۔

کوئٹہ کے ایک سینیئر استاد اور ماہر تعلیم کریم بخش نے بتایا کہ حکومت بلوچستان کے معیار کے مطابق کسی بھی جگہ کے پرائمری سکول کے لیے عمارت کے علاوہ عملے کے ساتھ چھ اساتذہ کا ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مڈل سکول میں چونکہ طلبہ کو پیریڈ کے حساب سے پڑھایا جاتا ہے، اس لیے 15 اساتذہ اور دیگر عملے کا ہونا لازمی ہے۔

دوسری جانب کپکپار تک پہنچنے کے لیے سڑک بھی کچی ہے۔ جس پر ایک گھنٹے کا فاصلہ تین گھنٹے میں طے کیا جاتا ہے۔ علاقے میں صحت کے حوالے سے بھی کوئی سہولت میسر نہیں تو خواتین کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔

لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود بھی اس سکول کے طالب علم اعلیٰ تعلیم کی جانب جا رہے ہیں۔ وہاں اسی سکول سے پڑھنے والا ایک طالب علم بولان میڈیکل کالج میں بی ڈی ایس (بیچلر آف ڈینٹل سرجری) کی تعلیم حاصل کررہا ہے۔

شئے حق بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب وہ اس سکول میں پڑھ رہے تھے تو صرف ایک ٹیچر ہوتا تھا اور چند ہی مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا: ’میٹرک تک ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اصل میں تعلیم ہوتی کیا ہے۔‘

شئے حق کپکپار کے علاقے سے تعلق رکھنے والے پہلے طالب علموں میں سے ہیں جنہوں نے بولان میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے انہوں نے دن رات ایک کیا، 24 گھنٹے بھی پڑھتے رہے اور ٹیوشن کے ساتھ ان کا اکثر وقت پڑھنے میں گزرتا تھا۔

شئے حق بلوچ کے مطابق: ’ہمارے پسماندہ علاقے کے طالب علم کے لیے کسی بڑے شہر کے یونیورسٹی یا کالج میں تعلیم حاصل کرنا کسی خواب سے کم نہیں ہے۔‘

 وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کو راستے کا علم ہو تو وہ منزل تک پہنچ سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ان کے جیسے علاقے کے بچوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے کہاں جانا ہے۔

شئے جب کرونا کی وبا کے دوران اپنے علاقے میں گئے تو انہوں نے اپنے سکول کے بچوں کو سائنس کے مضامین پڑھائے، جس پر بچوں نے کہا کہ انہیں تو اس مضمون کا علم ہی نہیں تھا۔

شئے حق نے بتایا کہ انہیں کوئٹہ آنے سے قبل تعلیم کے بارے میں اتنا علم نہیں تھا جو یہاں آکر پتہ چلا اور انتھک محنت کے بعد وہ بولان میڈیکل کالج کا انٹری ٹیسٹ پاس کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اپنی مدد آپ!

ادھر حکومت اور عوامی نمائندوں سےمایوسی کے بعد کپکپار کے سماجی کارکنوں نے مڈل سکول کپکپار کی تعمیر کے لیے چندہ مہم شروع کردی ہے۔

بالاچ قادر بھی کپکپار کے رہائشی اور ایک سماجی کارکن ہیں۔ وہ نہ صرف علاقے بلکہ سکول کی حالات زار اور طالب علموں کے مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے تین سال  قبل سکول کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی، لیکن محکمہ تعلیم اعلیٰ حکام اور عوامی نمائندوں سے بات کرنے کے باوجود انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔

بالاچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے ہر دروازے پر دستک دے کر دیکھ لیا۔ مایوسی کے بعد ہم نے ازخود عمارت کی تعمیر کے لیے مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے بڑی بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ ہمارے علاقے کے پرائمری سکول کی عمارت نہیں بنی اور اسے مڈل کا درجہ بھی مل چکا ہے۔‘

بالاچ نے بتایا کہ مڈل سکول کی عمارت تعمیر کرنے کے لیے سال 2019 میں صوبائی پی ایس ڈی پی  کے تحت ٹینڈر بھی جاری ہوچکا ہے، لیکن دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ہم ابھی تک منتظر ہیں کہ کب یہاں تعمیر شروع ہوگی۔

بالاچ قادر نے سوشل میڈیا پر فنڈ ریزنگ فارشیلٹر لیس سکول کے نام سے مہم شروع کردی ہے۔ وہ تربت شہر میں اس حوالے سے کیمپ لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جب اس مسئلے کے حوالے سے محکمہ تعلیم کے حکام سے رابط کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اکثر سکول ایسے ہیں جن کو مڈل کا درجہ مل چکا ہے لیکن فنڈز کے مسائل کے باعث ان کی تعمیر نہیں ہو پائی۔

بلوچستان محکمہ تعلیم کے سیکرٹری شیر خان بازئی نے بتایا کہ انہیں کپکپار مڈل سکول کے حوالے سے کوئی علم نہیں تاہم اگر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کیچ کوئی لیٹر جاری کرتے ہیں تو اس پر کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

دوسری جانب بالاچ قادر اور ان کے ساتھیوں کو چندہ مہم میں مثبت ردعمل مل رہا ہے۔ وہ پرامید ہیں کہ سکول کی عمارت کی تعمیر کے لیے وہ مطلوبہ رقم جمع کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

Monday, 18 January 2021

سردار یارمحمدرند، اخترحسین لانگوسمیت4اراکین صوبائی اسمبلی کی رکنیت ثاثوں کی تفصیلات جمع نہ کرانے پر معطل


 کوئٹہ : الیکشن کمیشن نے اثاثوں کی تفصیلات جمع نہ کرانے پر 6صوبائی اسمبلی کی رکنیت معطل کردی. الیکشن کمیشن آفمخصوص نشست پر شاہینہ کاکڑ شا پاکستان نے گزشتہ روز اراکین اسمبلی اور صوبائی اسمبلی اور سینیٹر کی جانب سے اثاثوں کی تفصیل نہ جمع کرانے پر کل 154 ارکان قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کی رکنیت معطل کر دی ہیے الیکشن کمیشن نے تین سینیٹرز 48, ارکان اسمبلی, پنجاب اسمبلی کے 52, سندھ اسمبلی کے 19, خیبر پختون خواہ کے 26 اور بلوچستان کے 6 ارکان کی رکنیت معطل کی. بلوچستان اسمبلی کے 6ارکان میں جمیعت علماء اسلام کے مولوی نورالللہ, بلوچستان عوامی پارٹی کے سردار مسعود لونی, تحریک انصاف کے سردار یار محمد رند, بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو ,محمد اکبر مینگل اور عوامی پارٹی کی مل ہیں

Saturday, 26 September 2020

Pakistan Post Employees are Selling Customer’s Parcels at Itwaar Bazar

 

 

Perks of ‘Itwar Bazar’

Itwaar Bazar is consider as the most ‘Sasta Bazar’ of all the times. But you know what? You can sell ‘Chori ka Saman’ there too. The next time you don’t get your parcel, go around Itwaar Bazaar before complaining anywhere.



 

“I order many items on Ali Express, China, and expect it to be delivered at my home address without tampering or stealing. I have been shopping online for the last seven years, but my parcels have stopped being delivered for the previous two months; they just vanish into thin air by the Pakistan Post.
Shockingly, it turns out that the Pakistan Post employees are selling these parcels in the market and buyers have been selling them online after opening them. Someone told me that many items are being sold in ‘itwaar bazaar’ every Sunday in Islamabad.”

Haseeb seems so dishearted with this unethical act of Pakistan’s Post employees.
He further goes like “I have lost faith in this country. I made orders of around $200 on the Ali express and received only one package worth $1.67 during the last two months.”

Moreover, he revealed that “I tried calling Murad Saeed, the Minister who deals with the Pakistan Post. Surprisingly, it turns out all the MNA’s have given fake mobile numbers to the election commission as per their website.”

Upon not receiving parcels on time Haseeb tried to investigate on his own but left in shock after the statement of the postman. “I also spoke to my postman, who delivers parcels to my address in Islamabad. He said packages, which reach Karachi for sorting, are not being released; the estate enterprise employees either sell them or take them to their homes.”

How large is Pakistan Post?

After the partition of the subcontinent in August 1947, Pakistan Post was established as the official postal service of Pakistan and has been serving the people of the country ever since.
The company has around 13,000 post offices throughout Pakistan.

Amazingly about 67% of Pakistan Post’s offices are located in rural areas where most of its private competitors are absent.

 


Thursday, 28 November 2019

آرمی چیف کی مدت ملازمت 6 ماہ بعد ختم نہیں ہوگی، فروغ نسیم

اسلام آباد: 
سابق وزیرقانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی مدت آج رات 12 بجے کے بعد سے جاری رہے گی اور چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت 6 ماہ بعد بھی ختم نہیں ہوگی۔

اسلام آباد میں سابق وزیرقانون فروغ نسیم، فردوس عاشق اعوان، شہزاد اکبر اور اٹارنی جنرل انور منصور خان نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کی سمری بھی گزشتہ طریقہ کار کے مطابق تھی، چونکہ روایت تھی تو آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن بنا دیا گیا۔

آج کا فیصلہ تاریخی ہے جس سے آئندہ کیلیے رہنمائی ملے گی، اٹارنی جنرل 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں کہیں کوئی ذکرنہیں کہ چیف آف آرمی اسٹاف کیسے تعینات ہوگا اوراس کا میرٹ کیا ہوگا لہذا 73 کے بعد جتنے بھی فوجی جنرل کو توسیع دی گئی اسی طریقے سے سمری بنائی گئی تو اس میں کوئی نئی چیز شامل نہیں تھی اور آرمی ایکٹ پہلے کبھی چیلنج نہیں ہوا، آج تک اس ایشوپر کسی عدالت نے فیصلہ نہیں دیا تھا۔

Friday, 27 September 2019

عمران کا ایک سالہ اقتدار، پاکستان عالمی پلیئربن گیا، برطانوی اخبار

لندن: 
برطانوی آن لائن اخبارانڈیپینڈنٹ نے اپنے ایک تجزیہ میں لکھا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے ایک سالہ دور اقتدار میں پاکستان عالمی پلیئر کے طورپر سامنے آیا ہے۔

پاکستان نے گزشتہ ایک سال میں ایک ذمہ دار عالمی شراکت دار کی حیثیت سے اپنی جگہ بنائی ہے اور اپنے بیانیہ کے ساتھ امن پسند ملک ہونے کا پیغام اقوام عالم تک پہنچایا ہے۔
اخبارکے مطابق ماضی کی ڈرامہ بازیوں کی طرح اب پاکستان دنیا میں مذاق یا تماشائی ملک نہیں رہا بلکہ یہ فعال، شراکت دار اور ذمہ دار ملک ہے جو ماضی کی پالیسی میں بڑی تبدیلی ہے جس نے بہت زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو ورثے میں نامساعد حالات اورابتر معاشی صورت حال ملی، تنقید کے باوجود عمران خان ملک کو آگے لے جانے میں کامیاب نظرآتے ہیں۔

قندیل بلوچ قتل کیس میں مرکزی ملزم وسیم کوعمرقید، مفتی عبدالقوی بری

ملتان: 
عدالت نے ماڈل قندیل بلوچ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم وسیم کو جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنادی۔

ملتان کی سیشن کورٹ میں ماڈل قندیل بلوچ قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ جج عمران شفیع نے فیصلہ سناتے ہوئے کیس کے مرکزی ملزم اور قندیل بلوچ کے بھائی وسیم کو عمر قید کی سزا سنادی جب کہ مفتی عبدالقوی سمیت دیگر نامزد ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران کیس میں ملزموں کے وکلا اور پراسیکیوشن کی جانب سے دلائل مکمل کرلیے گئے تھے جس کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ آج تک کے لیے محفوظ کرلیاتھا۔
قندیل بلوچ کے والدین کی جانب سے بیٹوں کو معاف کرنے کی درخواست کی گئی تھی جس پر عدالت نے نہایت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے درخواست مسترد کردی تھی اورکہا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں صلح یا مدعی مقدمہ کی طرف سے معاف کیے جانےکے عمل کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔
کیس کا پس منظر
ماڈل قندیل بلوچ کو 15 اور 16 جولائی 2016 کی درمیانی شب قتل کیا گیا تھا جس کا مقدمہ تھانہ مظفر آباد میں درج کیا گیا تھا۔ پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ قندیل کو گلا گھونٹ کر مارا گیا ہے۔ قندیل کے بھائی وسیم نے گرفتاری کے بعد اقبال جرم کرلیا تھا لیکن عدالت میں فرد جرم عائد کی گئی تو اس نے انکار کردیا۔ مقدمے میں مذہبی اسکالر مفتی قوی سمیت عبدالباط، ظفر اقبال، اسلم شاہین اور حق نواز کو گرفتار کیاگیاتھا۔

آفریدی نے مداحوں کو اپنا نیا گھر دکھا دیا

کراچی: 
بوم بوم آفریدی نے کراچی میں اپنے نئے گھر کا درشن کرا دیا۔

نئے گھر کی بیسمنٹ میں حجرے طرز کی جگہ بنائی گئی ہے۔ دنیاء کے نامور کرکٹرز کی شرٹس بھی سجائی گئی ہیں۔ گھر کی دیواروں پرکرکٹ میں حاصل کی گئی ٹرافی اور میڈلز کو بھی سجایا گیا ہے۔
پاکستان کرکٹ کے سپر اسٹار شاہد آفریدی کے گھر کے حوالے سے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے شاہد آفریدی اپنے نئے گھر کے حوالے سے تعارف کراتے ہوئے  کہہ رہے ہیں مہمانوں اور کرکٹ سے وابستہ دوستوں کے لیے انہوں الگ سی جگہ بنائی ہے گھر کے تہہ خانے میں بنائی جگہ میں گاؤں کے ماحول کی بھی عکاسی کی گئی ہے۔
afridi-home
آفریدی نے بتایا کہ گاؤں کے ماحول میں زمین پر بیٹھ کر کھانا پسند کیا جاتا ہے اسی لیے انہوں نے مہمانوں کے لیے زمین پر کھانے کا انتظام کیا ہے۔ ویڈیو میں شاہد آفریدی نے بتایا کہ انہوں نے نامور کرٹرز سے حاصل کی گئی شرٹس کو بھی سجایا ہوا ہے دیواروں پر ان شرٹس کو فریم میں سجایا گیا ہے جس میں ویرات کوہلی، سنگاکارا، شین وارن، ڈی ویلیئرز، یونس خان کی شرٹس شامل ہیں 2017 کی جیتی گئی چیمپئینز ٹرافی کا بلا بھی شاہد آفریدی نے سنبھال کر رکھا ہے۔
بوم بوم آفریدی نے دوستوں کے ساتھ ٹیبل ٹینس اور اسنوکر کی ٹیبل بھی کھیلنے کے لیے رکھی ہے۔ کرکٹ کی زندگی میں تاریخی لمحات کو شاہد آفریدی نے تصویروں میں قید کرلیا ہے اور تاریخی لمحات کی بنائی تصاویر کہانی بھی شاہد آفریدی کے گھر میں نظر آتی ہے۔
shahid
انہوں نے کہا کہ ایک ایک تصویر سے ان کی یاد وابستہ ہے اور حوالے سے وہ بعد ایک ویڈیو جاری کریں گے شاہد آفریدی نے سابق کوچ باب وولمر کے ساتھ بھی ایک یادگار تصویر لگا رکھی ہے اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے پستول کا دیا گیا تحفہ بھی انہوں نے گھر کی زینت بناکررکھا ہے۔
شاہد آفریدی نے ویڈیو میں بتایا کہ اپنی زندگی کی پہلی اننگز کا بلا بھی اسی حالت میں آج بھی موجود ہے وہ بلا سچن ٹنڈولکر کا تھا جو وقار یونس نے انھیں دیا کہ اس سے اپنی اننگز کا آغاز کر اور وہ بلا اس اننگز کی یاد دلاتا ہے۔