Meer Emran Baloch

This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

Tuesday, 6 February 2018

بلوچستان اور پانی کی قلت | کالم نگار: میر عمران بگٹی

        

بلوچستان اور پانی کی قلت

قدرت نے پاکستان کو کئی دریاؤں سے نوازا ہے، اس کے باوجود پانی کی قلت ہمارا قومی مسئلہ بن چکا ہے، صرف اس لیے پانی کے ذخائر میں اضافے پر توجہ نہیں دی گئی۔ آج کا یہ مسئلہ مستقل قریب میں باقاعدہ بحران کی شکل اختیار کرلے گا۔ تمام صوبے اس وقت پانی کی قلت کا سامنا کررہے ہیں لیکن بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ تیزی سے بڑھتی اس تباہی کا راستہ روکنے کے لیے چند اقدامات کیے جاسکتے ہیں جیسے 1) آبی ذخائر کے تحفظ اور ان کے مؤثر استعمال کے لیے اقدامات کیے جائیں، 2) پانی کا ضیاع اگر ختم نہیں ہوسکتا تو اسے کم سے کم سطح پر لایا جائے، 3) ضرورت کی بنیاد پر پانی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی جائے۔
چھوٹے آبی ذخائر کی اہمیت اپنی جگہ، وسائل سے مالامال سرزمین بلوچستان کے لیے ناکافی بارشیں مستقل اور پریشان کُن مسئلہ ہیں۔ مون سون میں یہاں برسات کی اوسط 200ملی میٹر سے بھی کم ہے، مغربی حصے میں تو کہیں کہیں یہ 50ملی میٹر سے بھی کم ہوجاتی ہے۔
ناقص جاگیردارانہ نظام میں اپنی بقا کی جنگ لڑنا آسان نہیں، اس پر پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محرومی عسکریت پسندی کی جانب دھکیلنے والے پیچیدہ محرکات کو مزید ہوا دیتی ہے۔ شدید خشک سالی اور انسانوں کے پیدا کردہ قحط مقامی آبادی کے لیے انتہائی سنگین صورت حال پیدا کررہے ہیں، بعض علاقوں میں حکومتی نااہلی اس کا سبب ہے۔
بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا مطلوبہ بندوبست نہیں کیا گیا اور زمین میں زیادہ گہرائی سے ہونے والی پمپنگ کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح گرتی رہی۔ سنگینی کے یہ دونوں اسباب حکومتی غفلت سے پیدا ہوئے۔ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ، بلوچستان یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر عین الدین کا کہنا ہے’’نوشکی، چاغی، خاران اور مکران اور دیگر علاقے خشک سالی کی زد پر ہیں۔
جس کی وجہ سے زمین، آبی ذخائر، پانی، جنگلی حیات اور پودے متاثر ہوچکے ہیں۔‘‘ وفاقی حکومت(حتی کہ میڈیا بھی) اس مسئلے کے حل پر بات تک کرنے میںکوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔ یہاں آبادی کے صرف 15فی صد کو صاف پانی تک رسائی حاصل ہے۔ کوئٹہ میں صورت حال تشویش ناک ہوچکی۔ ہر سال یہاں زیر زمین پانی کی سطح میں ساڑھے تین فٹ کمی ہورہی ہے، یہاں زیر زمین پانی کی اوسط سطح 180فٹ تک گر چکی ہے۔ زیادہ گہرائی تک ٹیوب ویلز لگانے پر پابندی کے باوجود ایسے کنوؤں کی تعداد 2000سے زاید ہے۔ ان میں سے صرف 450رجسٹرڈ ہیں۔ یہی غیر قانونی ٹیوب ویل زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے کا بنیادی سبب ہیں۔
بلوچستان کے بنجر زمین والے علاقوں میں پہاڑی سلسلے اور چاغی، خاران کے صحرائی علاقے، مکران کے ساحلی اور لسبیلہ، مری اور بگٹی قبائل کے علاقے شامل ہیں۔ تین لاکھ 47ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی یہ زمین پاکستانی رقبے کا 43 فی صد ہے۔ اس کی انتہائی زرخیز دو کروڑ ایکڑ زمین پر ہر سال کاشت سے بے پناہ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں نے کبھی اس جانب توجہ کیوں نہیں دی؟
قابل کاشت زمین کی دستیابی انسانوں کے لیے خواب بنتی جارہی ہے، اگر اس جانب توجہ دی جائے تو قحط سالی کے شکار بلوچستان کے پس ماندہ عوام کو معاشی اور غذائی وسائل میں خود کفیل بنایا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کا نظام آب پاشی تباہ حالی کا شکار ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخائر ختم ہونے کی وجہ سے روایتی نظام آب پاشی، بشمول کاریز(زیر زمین پانی کی ترسیل کے لیے کھلے کنوؤں کا مربوط نظام) غیر فعال ہوچکا ہے۔
ترجیحی بنیادوں پر سیلاب کی روک تھام، آبی ذخائر اور ڈیمز کی تعمیر کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ چھوٹے ڈیمز کی تعمیر بھی ناگزیر ہوچکی ہے۔ آب پاشی کا بڑا انفرااسٹرکچر، بالخصوص ڈیمز 2010ء کے سیلاب میں شدید متاثر ہوئے اور تاحال تباہ حالی کا شکار ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ’’100ڈیمز‘‘ منصوبے کی بہت تشہیر کی گئی اور اسے 2007-8ء کے ترقیاتی منصوبوں میں شامل کیا گیا، لیکن بیوروکریسی یہاں بھی آڑے آگئی۔
ماہرین کے مطابق ڈیموں کی تعمیر قحط، خشک سالی اور قلت آب کے بڑھتے ہوئے خطرات کا واحد حل ہے۔ گزشتہ ادوار میں صوبائی حکومت نے چند ڈیم تعمیر کیے۔ جب کہ دوسری جانب بڑی مقدار میں پانی ضایع ہوتا رہا اور اس بنیادی ضرورت کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی آبادیوں کو پیاس جھیلنا پڑی اور اس وجہ سے اموات بھی ہوئیں۔
بلوچستان کے محکمہ زراعت کے مطابق ’’ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ہرسال 10.69ارب مربع میٹر میں سے 8.57 ارب مربع میٹر(تقریباً80فی صد) پانی ضایع ہوجاتا ہے۔ انفرااسٹرکچر نہ ہونے کے باعث دریائے سندھ سے آنے والے پانی کی بہت قلیل مقدار قابل استعمال ہوتی ہے۔‘‘ یہ محکمہ ہوشیار کرتا ہے کہ ’’اگر پانی کا ضیاع اسی طرح جاری رہا تو مستقبل قریب میں آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوجائے گی۔‘‘
پڑوس میں ایرانی بلوچستان کا ماڈل موجود ہے، جہاں قلت آب کے خاتمے کے لیے آبی ذخائر اور ڈیمز کی تعمیر پر سرمایہ کاری کی گئی۔ انھی اقدامات کے نتیجے میں ایران چاہ بہار بندر گاہ کو فعال کرسکا، جس سے ملحقہ علاقے میں صنعتی علاقوں کی تعمیر کی گئی۔ گوادر پورٹ سٹی سی پیک منصوبے کا مرکز ہے، لیکن یہاں بھی پانی کی شدید قلت ہے، حتی کہ پینے اور گھریلو استعمال کا پانی بھی دستیاب نہیں۔ بلوچستان میں آبی ذخائر اور ڈیمز کی تعمیر کے لیے حالات انتہائی موزوں ہیں لیکن میرانی ڈیم کے بعد ایسے کسی منصوبے پر کام نہیں ہوا۔
آزمایشی بنیادوں پر بنائے گئے چھوٹے ڈیمز کامیاب نہیں ہوئے اور کثیر رقم ضایع ہوئی۔ مشرف دور میں کچھی کینال پر کام شروع ہوا۔ یہ منصوبہ تکمیل کے بعد کچھی اور سبّی کے علاقوں میں ستر لاکھ ایکڑ اراضی کی آبپاشی کے لیے پانی فراہم کرسکتا تھا۔ واپڈا نے اس منصوبے کا پہلا مرحلہ تاحال مکمل نہیں کیا، اس منصوبے میں ربع صدی کی تاخیر پہلے ہی ہوچکی ہے۔ اس کی لاگت بیس گنا بڑھ چکی ہے۔ اس سمیت آبی وسائل کے تمام منصوبوں میں، سوائے غفلت کے، تاخیر کی اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
وفاق اور صوبے میں قائم ہونے والی حکومتیں زندگی اور موت کے اس سوال سے پہلو تہی کرتی رہیں۔ پسنی کی ساحلی پٹی کے مکین نصف صدی سے پانی کی قلت جھیلتے رہے، تاہم جب شادی کور دریا پر ایک چھوٹا ڈیم بنایا گیا تو پہلی ہی بارش سے اس میں چالیس ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوا۔ اسی طرح گوادر کے نزدیک اکرا کور ڈیم اور سیجی ڈیم کی تعمیر سے ملحقہ رہایشی علاقوں میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل ہوگیا۔ ساحلی پٹی میں متعدد ڈی سیلینیشن پلانٹس کی ضرورت ہے، ڈیمز پر آنے والی لاگت اور اخراجات کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
میرانی ڈیم آخری بڑا ڈیم تھا جو 2002ء میں ضلع کیچ میں دشت دریا پر تعمیر ہوا۔ یہ درمیانے حجم کا ایک کثیر المقاصد ڈیم تھا۔ اس ڈیم کی تعمیر سے سیکڑوں بڑی کاریز اور کنوؤں میں بھی پانی کی فراہم ممکن ہوئی۔ اندازہ یہ تھا کہ 33200ایکڑ اراضی کی آبپاشی اس سے ممکن ہوگی لیکن معمولی رقبے کی آبیاری ہوسکی۔ واپڈا نے حال ہی میں نولونگ، ہنگو، بادیزینی اور سکلجی ڈیموں کی تعمری کے لیے کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ نولونگ ڈیم کے لیے درکار مالی وسائل کی فراہمی کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک آمادہ ہوچکا ہے، کام کا آغاز جلد ہوجائے گا۔ دیگر تین ڈیم منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہیں اور ان کے پی سی ٹو منصوبہ بندی کمیشن سے منظوری کے منتظر ہیں۔
سی پیک بلوچستان کے لیے معاشی ترقی کی نئی راہیں کھولے گا۔توانائی، ٹرانسپورٹ، گوادر شہر کی تعمیر کے منصوبوں پر ابتدائی سرمایہ کاری کا تخمینہ7.1ارب ڈالر ہے، بندرگاہ کے تعمیراتی اخراجات اس میں شامل نہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ مزید ڈیموں کی تیزی سے تعمیر ہورہی ہے، لیکن گوادر، پسنی اور اوڑ ماڑا کے لیے ڈی سیلی نیشن پلانٹس ضروری ہیں جنھیں ہوا اور شمسی توانائی سے چلایا جاسکتا ہے۔
سی پیک کو توانائی اور سڑکوں، ریل کی پٹریوں اور انفرااسٹرکچر کے تعمیری منصوبوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، اس میں کم از کم دس سے بارہ نئے ڈیم ہنگامی بنیادوں پر تعمیر ہونا ضروری ہیں۔
دنیا نے بڑے ڈیم بنانا چھوڑ دیے۔ صوبے میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کو نظر انداز کرنا پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا، ہم 100 ڈیم تعمیر کرکے بلوچستان کا مقدر تبدیل کرنا چاہتے ہیں یا اس کی آبادی کو پیاس اور افلاس کے شکنجے میں سسکتا چھوڑدیں گے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان تھانے میں ،میر عبدالقدوس بزنجو کا ایک اور بڑا سرپرائز،ایک ہی دن میں ایسے کام کردکھائے کہ کسی نے سوچا تک نہ ہوگا



کوئٹہ(این این آئی)وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزیرداخلہ میرسرفراز بگٹی نے جمعہ کو اچانک صدر تھانہ کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے تھانے کا روزنامچہ چیک کیا اور تھانے میں بے گناہ افراد کو قید رکھنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے محرر کے خلاف تحقیقات کا حکم دیدیا۔تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی اچانک صدر تھانہ پہنچ گئے جہاں انہوں نے تھانے کا روزنامچہ چیک کیا اور19ہزار قرض کی عدم ادائیگی پر ایک شخص کو قید کرنے پر ایس ایچ او پر برہمی کا اظہار کیا اور رکشہ ڈرائیور
کو بلاجواز تھانے میں قید رکھنے پر محرر کے خلاف تحقیقات کا حکم دیدیا وزیراعلیٰ نے اپنی جیب سے رکشہ ڈرائیور کو ایک ہزار روپے بھی دیئے جبکہ وزیراعلیٰ نے قرضے کی عدم ادائیگی پر تھانے میں بند قیدی کے 19ہزارروپے کے قرض کی رقم بھی ادا کردی۔اس موقع پر رکن صوبائی اسمبلی میرحمل کلمتی بھی وزیراعلیٰ کے ہمراہ تھے۔

ن- لیگ قیادت آقا ہے اور نہ ہی ہم غلام ‘سینٹ انتخابات میں کیا ہوگا؟،وزیرداخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بڑا اعلان کردیا



لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ (ن) لیگ کی قیادت آقا ہے اور نہ ہی ہم انکے غلام ہیں ‘سینٹ انتخابات میں ہمارا اپنا گروپ ہوگا اور متفقہ فیصلہ کر یں گے ‘پیپلزپارٹی کو سینٹ میں ووٹ دینے کی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی‘سی پیک کے حوالے سے وفاقی حکومت نے قائم کردہ کمیٹی کا آج تک ایک اجلاس بھی نہیں بلایا‘بلو چستان کر پشن کامکمل خاتمہ کر یں گے‘بلو چستان میں وزیر اعلی تبدیلی کوئی غیر آئینی اقدام نہیں سب کچھ جمہوری اور قانونی طر یقے سے ہوا ہے ‘پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ طلباء
کے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ 
ہفتے کے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی میں حکومت نے بلوچ طلباء کو نشانہ بنانیوالوں کے خلاف ایکشن نہ لیا تو ہم اس پر کسی صورت خاموش نہیں رہیں بلکہ ہر سطح پر بھر پور احتجاج کیا جائیگا حکومت کو چاہیے وہ پنجاب یونیورسٹی میں تنظیموں پر پابندی لگائے اور انتشار پھیلانے والوں کے خلا ف ایکشن لیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی سے سیاسی مداخلت ختم کی جائے، جمعیت کو سیاست کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ڈنڈے کے زور پر سیاست کا حق کسی کے پاس نہیں ہم ملک کو کہاں لے کر جا رہے ہیں،پاکستان کو قومیت کی بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا ہے۔؟۔ 
انہوں نے کہا کہ مجرم جو بھی ہو، اسے سزا ملنی چاہئے،بے گناہ طلبا کو رہا کیا جائے ،وزیر داخلہ بلوچستان نے کہا کہ یونیورسٹیز میں بچوں کو آگے بڑھنے کے موقع ملنے چاہئیں،ہم پنجاب حکومت اور عوام کے شکرگزار ہیں کہ بلوچ طلبا کو سکالر شپ پر تعلیم دی جا رہی ہے اور انہیں معاشرے میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا جا رہاہے،انہوں نے کہا کہ سینٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی کی حمایت کا فیصلہ نہیں کیامگر ہم اپنا فیصلہ کر نے میں آزاد ہوں گے اور اپنے گروپ کے ہمراہ متفقہ فیصلہ کر یں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی صوبے کے اراکین اسمبلی کے پاس آئین وقانون کے مطابق اپنے وزیر اعلی کو تبدیل کر نے کا حق ہوتا ہے اس لیے ہم نے بھی بلو چستان میں وزیرا علی تبدیل کر کے کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا بلکہ یہ ہماراجمہوری اور حق ہے اور اب بلوچستان میں نہ صرف کر پشن کا خاتمہ ہوگا بلکہ ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا ۔

سینٹ انتخابات،اکثریت حاصل کرنے کیلئے آصف علی زرداری اور فضل الرحمن نے بلوچستان فارمولا ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی استعمال کرنے کی تیاریاں کرلیں، حیرت انگیزانکشافات



کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)  سندھ سے ایوان بالا سینیٹ کی بارہ نشستوں کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے 96امیدواروں نے نامزدگی فارم حاصل کرلیے ،سندھ بلوچستان اورپنجاب میں سینیٹ انتخابات کے لیے سیاسی داو پیچ کا سلسلہ تیز ہوگیا ،سابق صدر آصف زرداری سینیٹ میں پیپلزپارٹی کو برتری دلانے اور سیاسی پارٹیوں سے جوڑ توڑ کیلئے متحرک ہوگئے،پیپلزپارٹی سمیت مختلف پارٹیوں کا سینیٹ کے لیے امیدوارشارٹ لسٹ کرنے اورمشترکہ تعاون پراتفاق کے باوجود سیاسی اتحاد یا مفاہمتی کارڈ قبل ازوقت شوکرنے سے اجتناب کی پالیسی گامزن ہیں ۔ سندھ سے خالی ہونے والی سینیٹ کی بارہ نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے
لیے جوڑتوڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے حکمران پیپلزپارٹی ،ایم کیو ایم پاکستان، پی ایس پی، فنکشنل لیگ سمیت مختلف جماعتوں اورآزاد ارکان سمیت 96 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی حاصل کرلیے ہیں الیکشن کمیشن سندھ کا دفتراتوارکے روز بھی کھلا رہا تاہم ابھی تک کسی بھی امیدوارنے پہلے روز اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے ۔ الیکشن کمیشن سندھ کے ترجمان کے مطابق اتوارکے روز بھی الیکشن کمیشن سے مختلف پارٹیوں اوران کے نامزد کردہ ارکان نے 30 نامزدگی فارم حاصل کیے اورکاغذات نامزدگی جمع کرانے کے پہلے روز کسی امیدوار نے فارم جمع نہیں کرائے ہیں ،صوبائی الیکشن کمشنرکے مطابق سینٹ انتخابات 2018 کیلئے امیدوار 8 فروری تک کاغذات نامزدگی حاصل کرکے جمع کرا سکتے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی دا پیچ کے ماہر سابق صدر آصف علی زرداری نے سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی برتری کے لیے رابطوں اورجوڑتوڑ کا سلسلہ سندھ سے بلوچستان ،خیبرپختونخواہ اورپنجاب تک وسیع کردیا ہے ۔ معتمد ترین ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری اور فضل الرحمن بلوچستان فارمولا ملک کے دوسرے صوبوں خصوصا خیبر پختونخوا میں بھی استعمال کرنے کے خواہشمند ہیںاوروہ کے پی کے میں پیپلز پارٹی آفتاب شیرپا ،اسفندیار ولی اور مولانا فضل الرحمن سے مشترکہ طور پر کوئی سیاسی مفاہمت کر کے خیبرپختونخوا سے کچھ سینیٹرز بنانے کے لیے جوڑتوڑ میں مصروف ہیں اسی طرح انہوں نے صوبہ پنجاب اوربلوچستان کی صورتحال پر چوہدری شجاعت حسین سے بھی سینیٹ انتخابات میں اپ سیٹ کے لیے مشاورت کی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے 46ارکان مشترکہ تعاون کے ذریعہ ایک جنرل نشست نکالنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔پیپلزپارٹی سندھ سے 5جنرل اور5مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے جوڑتوڑ میں مصروف ہے ، جب کہ ایم کیوایم اور دیگر اپوزیشن جماعتیں 3جنرل اور دو مخصوص نشستوں پرکامیابی کے لیے سرگرم ہوگئی ہیں۔جیسے جیسے سینیٹ کے الیکشن قریب آرہے ہیں سندھ میں بھی ایوان بالا کی بارہ نشستوں کے لئے سیاسی جوڑ توڑ میں تیزی آرہی ہے۔ پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور کبھی فنکشنل لیگ اور مسلم لیگ ن، سبھی اپنے پلڑوں کا وزن بڑھانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں جبکہ روٹھوں کا منانے اور نئی سیاسی چالوں کے ذریعہ ہرجماعت اپنی اپنی برتری کے لیے سرگرم ہوگئی ہیں۔سینیٹ الیکشن کے لیے متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ نون میں پینگیں بڑھنا شروع ہوگئی ہیں۔سینیٹ میں برتری کے لیے سیاسی چالوں اور جوڑتوڑ کا عمل ملک بھرمیں جاری ہے بعض جماعتوں نے اپنے امیدواروں کوشارٹ لسٹ تو کرلیا ہے مگر کسی بھی جماعت نے سینیٹ انتخاب کے لیے اتحاد یا مفاہمتی کارڈ ابھی خفیہ رکھا ہوا ہے ۔ سندھ میں سینیٹ کی 12نشستوں کیلئے انتخاب ہوگا ، جن میں 7 جنرل 2ٹینوکریٹ 2خواتین اور ایک اقلیتی نشست شامل ہے۔

بلوچستان میں شدید سردی، کوئٹہ میں درجہ حرارت منفی 10ہوگیا


وئٹہ (این این آئی)وادی کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف شہروں میں سردی کی شدت بڑھ گئی ٗ درجہ حرار ت منفی 10 درجے ریکارڈ کیا گیا ۔میڈیا رپورٹ کے مطابق وادی کوئٹہ سمیت صوبے کے متعدد علاقوں میں سردی کی شدت منگل کو بھی برقرا ر رہی ٗ سرد ہوائیں چلتی رہیں ٗ ریکارڈ کئے گئے کم سے کم در جہ حرار ت کے مطابق کوئٹہ میں منفی10 ،قلات میں منفی7 ، دالبند ینمیں منفی 3،ژوب اور سبی میں صفر ،پنجگور میں ایک، بارکھا ن3 اور گوادر میں 8 ، تربت اور خضدار میں 6 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا
گیا۔محکمہ موسمیات نے آئندہ24 گھنٹوں کے دور ا ن صوبے کے مختلف علاقوں میں موسم سرد اور خشک رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔کوئٹہ، قلات، دالبندین، زیارت اور ژوب سمیت متعد ا ضلا ع میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی درجے نیچے ریکا رڈ کیا گیا۔

India May Attack Pakistan’s CPEC Projects [REPORTS]


The multi billion dollar project spearheaded by China, aims to create transportation networks, energy projects, and economic zones throughout Pakistan. The CPEC project is currently worth $62 billion, making it the largest project within China’s Belt and Road Initiative (BRI). The project aims to modernize Pakistan’s infrastructure, while granting Beijing access to a rail and highway transport network connecting China to the Middle East and Africa.

India’s Qualms

India has taken issue with CPEC, not just because Pakistan is India’s main regional rival. CPEC transport networks would cut through Pakistan Administered Kashmir, Azad Jammu & Kashmir (AJK), a self governing, but contested territory between India and Pakistan. Kashmir also shares a border with China. Indian Ambassador to China, Gautam Bambawale, has explained India’s position on CPEC, “CPEC passes through Indian-claimed territory and hence violates our territorial integrity. This is a major problem for us. We need to talk about it, not push it under the carpet.” While critics say India just wants a piece of the economic action, Indian officials claim CPEC violates Indian sovereignty.

India’s Alleged Plans

Dawn newspaper reports that the Interior Ministry believes a terrorist attack directed towards CPEC may be imminent. According to reports from Dawn, Pakistan’s Interior Ministry has notified authorities that India plans to attack the Karakoram Highway in Gilgit-Baltistan (GB) province.
The Interior Ministry has informed the provincial government of Gilgit-Baltistan, a northern territory that borders China as well as Azad Kashmir, about the potential attack on the Karakoram Highway. An anonymous source from within the government confirmed to Dawn that they had been warned by the Interior Ministry about the potential for a coming attack. A letter sent to officials in GB claims that India has sent 400 Muslim men to Afghanistan to receive training that would enable them to carry out terror attacks against CPEC projects. The local government is said to have responded by increasing security on the route, especially on the two dozen bridges along the highway.
Saturday, Gilgit-Baltistan Home Secretary Jawad Akram and Inspector General of Police Sabir Ahmed, along with other intelligence officials, made a visit to the Diamer district in GB. During the visit they reviewed security measures, especially for the bridges, which the envoy reported had been declared “sensitive.” Inspector General Ahmed, also said that foreigners will be facing extra scrutiny at the time and suspects will be detained.

Could Talks be Held?

Although India has long protested CPEC, Beijing has indicated that they are ready to hold talks with New Delhi. Chinese officials have even said that Beijing is willing to rename the project to satisfy New Delhi. Spokeswoman for the Chinese Foreign Ministry, Hua Chunying, announced last Monday that China is willing to discuss India’s concerns over CPEC:
Regarding the CPEC, China has repeatedly reiterated its position. As to the differences between China and India, China stands ready to communicate and hold talks with India to seek a proper solution so that these differences will not affect our general national interests. This best serves the interests of the two countries… CPEC is merely an economic cooperation project. It has not targeted any third party. We hope the Indian side can put this in perspective and we stand ready to strengthen cooperation with the Indian side.
In regards to contested Kashmir, Hua said Beijing believes this dispute should be resolved by Pakistan and India themselves.

Other Voices

Hua went on to say the Belt and Road Initiative has progressed smoothly and created many jobs. She also highlighted Pakistani Prime Minister Shahid Khaqan Abbasi’s comments at the World Economic Forum at Davos.
At Davos, Prime Minister Abbasi lauded China’s BRI, saying that it is much more than just an infrastructure project, “We strongly recognise the vision of China and President Xi Jinping.” The Prime Minister continued:
We believe the Belt and Road Initiative is perfectly in sync with the WEF theme of creating shared future in a fractured world. It is much more than just a partnership on infrastructure and it will cause significant improvement in lives of people from different countries.
Prime Minister Abassi also pointed out that half of the world’s population lives within the sphere of BRI, while other speakers, like Aecom Chairman Michael Burke, underscored the potential for GDP growth brought to the region thanks to BRI.
Pakistani Minister of State for Information, Broadcasting, National History and Literary Heritage Marriyum Aurangzeb is currently on a four day trip to China. She has said on her trip that BRI will cement ties between Pakistan and China, while helping Pakistan to overcome its energy crisis. She also stated that she would like to see greater cultural and media exchange between the two nations. Greater cultural exchange is a stated purpose of the CPEC project.
Afghanistan has likewise voiced their concerns over CPEC. Friday, Yao Jing, China’s ambassador to Pakistan, said that CPEC may expand to other states within the region. Ambassador Yao specifically pointed to Afghanistan as a potential partner and claimed China has had contact with the Afghan Taliban in Qatar, requesting that they hold talks about Afghanistan’s future with CPEC.

Internal Critics

Although Aurangzeb has insisted while in China that all political parties in Islamabad support CPEC, the project is not without its critics.
While Chinese and Pakistani officials have been adamant that CPEC will bring economic stability to the region, not everyone agrees. Critics in Pakistan and abroad wonder whether Islamabad will be able to repay the debts incurred through the project. They also question the lack of transparency that surrounds many of the projects.
Because of the secrecy regarding CPEC, independent economists have been unable to accurately assess the potential benefits to the Pakistani economy; many worry that China may be exploiting Pakistan through the project.
Others point to the use of Chinese instead of Pakistani workers. According to Beijing, 10,000 Chinese citizens are working on various CPEC projects in Pakistan, while some 60,000 Pakistani workers have been contributing to the joint project. Critics doubt these numbers and ask why China has imported the majority of the project’s materials, while avoiding partnerships with local businesses.